اک مان ٹوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
رشتوں سے ایمان
چھوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
پھولوں کا گلدان
ٹوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
دعاوں سے اک انسان
روٹھا ہیں بس اور کچھ نہیں
ہاتھوں سے اک ہاتھ
چھوٹا ہیں بس اور کچھ نہیں
فلک کو دیکھ کر اب
کوئی روتا ہیں بس اور کچھ نہیں
آنسو پلکوں تک آتا ہیں اور
کہیں کھوں جاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
کوئی لفظ محبت لکھ لکھ کر
مٹاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
صحرا میں جام پایا اور
منہ تک لا کرکوئی
گراتا ہیں بس اور کچھ نہیں
مٹی سے گھر بنایا تھا کبھی
اور مٹی میں کوئی
ملاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
دل میں جلتے ُامید کے دیے
کوئی بھجاتا ہیں بس اور کچھ نہیں
موت سے جو ڈرتا تھا کبھی
آج موت کو دیکھ کر کوئی
بانہیں پھلاتا ہیں بس اور کچھ نہیں