اک پل بھی تیری یاد بھلائی نہیں جاتی
ہم سے تو مصیبت یہ اٹھائی نہیں جاتی
جو عشق کی ہے چوٹ، چھپائی نہیں جاتی
اور لب پہ شکایت بھی تو لائی نہیں جاتی
کیا خاک اثر اس میں ہو اے پیر مغاں ! پھر
نظروں کے جو شیشے سے پلائی نہیں جاتی
پردے کا یہ عالم بھی قیامت کی جھلک ہے
چلمن کبھی رخ سے جو ہٹائی نہیں جاتی
ہر وار حسینوں کا کھلا زہر ہے لیکن
یہ دل عجب شے، جو بچائی نہیں جاتی
اس شرم پہ قربان فرشتوں کی حیا ہے
حوروں سے یہاں آنکھ اٹھائی نہیں جاتی
یادوں کا تیری لے کے خزانہ بھی چلے ہیں
اشکوں سے فقط بزم سجائی نہیں جاتی
ملتا ہے صلہ خون بہانے کا جہاں میں
بیکار تو محنت کی کمائی نہیں جاتی
اک چوٹ لگی تجھ کو بھی دل پر ہے یقینا
رومی ! جو تیری شعلہ بیانی نہیں جاتی