اک ہمدم دیرینہ
Poet: By: Ata Muhammed Tabussum, Karachiاک ہمدم دیرینہ
 رہتا ہے اسی شہر میں
 جس کا کوئی انت ہی نہیں ہے
 دن اور ہفتے تیزی سے گزر جاتے ہیں
 پر اس سے ملاقات نہیں ہوتی
 ایک سال بیت گیا 
 کچھ خبر ہی نہیں ہوئی
 میں اس مہربان چہرے
 کے دیدار سے محروم رہا
 زندگی کے لمحات یوں خاموشی سے گزر جاتے ہیں
 اسے بھی پتہ تھا کہ میں 
 اسے ہر پل یاد کرتا ہوں
 ایسے ہی جیسے گزرے رتوں میں
 ہم ہر روز ایک دوسرے سے ملتے تھے
 وہ سنہری دن تھے
 ہماری زندگی کے
 بے غرض دوستی کے
 جب ہم جوان تھے
 لیکن اب ہم بوڑھے ہوگئے ہیں
 ان درختوں کی مانند
 جن کی جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی ہوتی جارہی ہوں
 ہم بیزار ہیں ایک بیوقوفانہ کھیل سے 
 اور کچھ مصروف بھی ہیں اسی کھیل میں
 کھیل بھی کیسا ہے
 دولت کمانے کا 
 نام کمانے کا 
 ایک دوسرے کو مات کرنے کا
 کل صبح میں اسے فون کروں گا
 یہ بتانے کے لئے کہ وہ مجھے یاد آتا ہے
 دن ہفتے اور مہینے یوں ہی گزر گئے
 لیکن وہ دن کبھی نہ آسکا
 اور ایک دن ٹیلیفوں کی گھنٹی بجی
 ایک پیغام تھا
 وہ مہربان چہرہ رخصت ہوگیا
 ہم سب ایک دن اسی طرح 
 اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے
  







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 