اگر کبھی میری اذیتوں کو سمجھ سکے
تو تم گزرے وقت کو بہت پھچتاؤں گئے
اور اگر کبھی نا سمجھ سکے تو میری جان
تم آہستہ آہستہمجھے بھول جاؤں گئے
میرے الفاط تم سے تمہیں تک ہیں لکی
محسوس کروں تو موم کی طرح پگھل جاؤں گئے
میری بات لمبی اور ادھوری کہانی ہی سہی
فرصت سے پڑھوں تو اپنی انا سے نکل آؤں گئے
کیوں مبلوس کر لیا میرے قلم نے کفن
دھیان تو دو - اپنے ہی ہاتھ میں زہر پاؤں گئے
میری خامشی میں انجانی وحشتیں ہیں بہت
سن سکو تو پانی میں بھی جل جاؤں گئے