اگر ہم نیند سے بیدار ہو جائیں
یقینا حاکم و سردار ہو جائیں
اگر ہم صاحب کردار ہو جائیں
یقینا صاعقہ آثار ہو جائیں
حفاظت کی یہی صورت بچی ہے بس
شہادت کے لیے تیار ہو جائیں
جلا کر کشتیاں اپنی سرِ ساحل
چلو سینہ سپر اس بار ہو جائیں
ہماری منزلیں ہم کو پکاریں گی
اگر ہم مائلِ رفتار ہو جائیں
تمھا را ذکر آ جائے جو شعروں میں
تو پھر غزلیں مری شہکار ہو جائیں
مٹادیں مسلکی تفریق او ر ہم لوگ
چلو شیر و شکر اک بار ہو جائیں