حبس و نجس کے بحر صفا میں
زیست کی اس بد رنگ قبا میں
کفر کی اس گھنگور گھٹا میں
جنگ و جدل کی وحشی ہوا میں
ذات کا بھیدی کون بنے گا
اگلا ایدھی کون بنے گا؟
تم کو فقط مالی کا غم ہے
لیکن فکر چمن کیا کم ہے؟
سہمی کلیاں، ٹوٹے پتے
صبا میں دہشت رنج الم ہے
درد کے اس ماحول میں خوشبو
سب پھولوں سے پوچھ رہی ہے
ذات کا بھیدی کون بنے گا
اگلا ایدھی کون بنے گا؟
مجھ پر بھی ایدھی کا دم ہے
دل میں اک خواہش پیہم ہے
سچ ہے اتنا کام نہ ہو گا
ایدھی جیسا نام نہ ہو گا
لیکن میرے ایدھی پن کا
اس سے اچھا انجام نہ ہو گا
ذات کا بھیدی میں بنوں گا
اگلا ایدھی میں بنوں گا