ایسا نہیں کہ مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
پایا ہے اُس کو جیسا ، ویسا کھو نہیں سکتا
لاکھ ہونگے زندگی میں خوب اور خوب تر
اس دنیا میں ، اب تُم جیسا ، ہو نہیں سکتا
ہنستا ہے ہنستا رہے ، جو مجھ پہ زمانہ
ہنسنے والا کیا کبھی پھر رو نہیں سکتا
داغ بے شک لگ چُکا ہے جُرم بھی میں کر چُکا
توبہ کر کےمیں اُسے کیا دھو نہیں سکتا
سوتا رہے اگر وہ تو ، میں جاگتا رہوں
وہ رہے گر جاگتا ، میں سو نہیں سکتا
اُٹھ بھی جاؤ نعمان اب وہ جا چُکا ہے گھر
تُم اُسے لے آؤ ، کیا یہ ہو نہیں سکتا؟