ایک ادھورا خواب سہی
میری زندگی عذاب سہی
جِسے فصلِ بہار کھا گئی
میں وہ مَرجھایا گَلاب سہی
میں مسافرِ منزلِ بے نشاں
میرا ہر سفر سراب سہی
جو کسی سے بھی نہ حل ہوا
وہ سوال سہی وہ جواب سہی
کیا خراب ہے کیا درست ہے
کسی اور دِن یہ حساب سہی
جِسے کوئی سامع نہیں مِلا
مین وہ بے نوا مضراب سہی
جو اپنے اوراق میں بند رہے
عظمٰی ایک ایسی کتاب سہی