ایک دفعہ پھر یہ 8 مارچ آیا ہے
شرم و حیا کا پیکر ساتھ لایا ہے
بیچ پنڈل میں لٹکا کر جلایا ہے
رکس کی تھاپ سے جشن پھر منایا ہے
کسی کی عزت کو لوٹا کسی کو جان سے مارا ہوا ہے
مگر یہ کون منکر ہمارے جنازوں میں آیا ہے
ہم تومر کے بھی سفید کفن کو خود سے لپٹے رکھے
ہم تو آخری سانس تک اللہ اکبر کہتے مٹ گۓ
پھر وہ کون ہے جو ہمارا محرم چھیننے آیا
ہمیں سربازار برہنہ کرنے آیا
وہ کہتے ہیں ہمارا دیس ہے نرالا
وہاں کی ہر اک مادہ نے ہے اپنا مقام پایا
وہاں عیش تو ہے آرام بھی ہے سہولت عام بھی
وہاں بہن کا نہ بھائی ہے نہ بیٹا کوئی
وہاں کسی کا نر کسی دوسرے کے گھر ہے آج
طبیت جو بدلےتو شکل،صورت گھر بھی بدلے
میں چھلنی ہوں میرے زخم ہرے ہیں آج
میں نے پھر بھی اسے چادر میں چھپا رکھا ہے
نہیں ہوتا انصاف اگر انسان کی عدالت میں
میرا مقدمہ چلتا ہے ہر رات بارگاہ عدالت میں
وہ آرام کی غرض سے لیٹتا ضرور ہوگا
گناہوں کے ترازو میں جھولتا ضرور ہوگا