کوئی آج ھم سے تا ابد جدا ھو گیاھے
وفاؤں کے آگے کیسے ھوا ھو گیا ھے
درد سے تو اسکو خلاصی مل گئی ھے
زمانے کا قرض بھی ادا ھو گیا ھے
جدائی کے ستم سہتے سہتے یہ دل
اب تو غموں کا ٹھکانا ھو گیا ھے
اجل نے بڑھ کر گھر کا دیا بجھا دیا
چلو آندھیوں کا تو بھلا ھو گیا ھے
آؤ جلا دیں آج پھر بجھتے ھوئے چراغ
فرقت سے اسکی اندھیرہ ھو گیا ھے
جو کبھی کسی کو خاطر میں لاتا نہ تھا
آج اونچا مکان ویران راستہ ھو گیا ھے
ساقی سے کہو اپنے پیمانے اٹھا لے جائے
کہلا د و آج سے حسن پارسا ھو گیا ھے