ایک پتھر ہے جسے دوست بنائے نہ بنے
پاس آئے نہ بنے دور بھی جائے نہ بنے
ہم سمجھتے ہیں وفا کو ہی ایماں کا حاصل
ہو وفا دل میں تو بن اس کو نبھائے نہ بنے
پھیر لیتے ہیں وہ منہ دیکھ کے لب پر جنبش
حال دل کیسے بیاں ہو جو سنائے نہ بنے
ایک پردہ ہے جو رہتا ہے سدا اپنا رقیب
ایسا ہو جائے چھپیں اور چھپائے نہ بنے
لوٹ جائیں گے مگر ان کو خبر نہ ہو گی
مدعا کہیے تو کیسے کہ بتائے نہ بنے
جب کسی طور نہ بہلے کہاں لے جایے دل
ساغر و مینا و ساقی سے لگائے نہ بنے
اب یہ حسرت ہے کہ حسرت نہ ہو کوئی زاہد
ہم مٹا ڈالیں مگر دل سے مٹائے نہ بنے