اے امیر شہر
تیری آنکھوں میں یہ جو دولت کی چمک ہے
یہ یوں ہی نہیں چلی آئی ہے
بھوک سے کتنے ہی چراغ بجھے ہیں
تیرے مقہوروں کے
کتنے ہی مزدوروں کے
بدن ایندھن بنے ہیں
تب تیری جہنم نے ضیاء پائی ہے
تب تیری آنکھوں میں چمک آئی ہے
چہرے پر یہ جورونق ہے
پیرہن پر خوشبو جو نرالی ہے
مفلس کی لٹی سانسیں ہیں
مزدور کے لہو کی یہ لالی ہے