کسی رات تم سوتی ہو
اور میں کھڑکی سے کود آؤں
سرگوشی میں، میں تم سے کہوں
”اے ای، شی شی شی، اٹھو نا جانا“
اور تم یوں کرو
”اوں، ہوں ہوں“
پھر آنکھیں کھولو ڈرجاؤ
میں تم سے کہوں
”کوئی چور نہیں، تمہاراپیار ہوں میں“
تم آنکھوں میں خوف سجا کے کہو
”پاگل، بالکل ہی پاگل ہو“
”اس وقت کیوں میرے پاس ہو تم،
میں ٹھیک ہی تم کو سمجھی تھی
اک غنڈے اور بدمعاش ہو تم“
میں دھیرے دھیرے سمجھاؤں
”میں ایسا ویسا نہیں جاناء،
ہاں پہلے تھا کچھ بگڑا ہوا
اب پہلے جیسا نہیں جانا،
بس اتنا کہنے آیا ہوں
میں تم کو لینے آیا ہوں
چلو چلیں ذرا اس نُکڑ پہ
ہوٹل پہ پٹھان کے چائے پیئیں“
حیران ہو تم، پھر خوب ہنسو
پھر اٹھو اور چادر اوڑھو
کچھ شرماتی، کچھ خوف زدہ
مرے ساتھ چلو
چپکے چپکے گھر سے نکلیں
پھر دوڑتے ہم ہوٹل پہنچیں
وہاں بیٹھیں پلنگ پہ، چائے پیئیں
کچھ بات کریں اور کچھ جھگڑیں
پھر چھوڑوں تمھیں دروازے پر
میں کھڑا رہوں، تم کہتی رہو
”جاؤ بھی نا، اب جاؤ گھر“
میں لوٹوں اپنے رستے پر
تاروں سے دمکتے رستے پر