جزبات ہوس بن جائیں تو
پھر کیا کیا ہونے لگتا ہے
بازار مصر کا لگتا ہے
حوا کی بیٹی بکتی ہے
مجبوری میں وہ بیچاری
کبھی ناچتی اور تھرکتی ہے
جزبات ہوس بن جائیں تو
معصوم کلی کو
بوڑھے گدھ
جنجھوڑتے ہیں بنھبھوڑتے ہیں
تاراج ہی کرکے چھوڑتے ہیں
آوارہ لڑکون کی ٹولی
اور سہمی سمٹی
تھر تھر کانپتی وہ لڑکی
جسے مل کے
سب نے روند دیا
پامال کیا
اے بِنتِ حوا مر کے بھی
محفوظ کہان ہے آج بھی تُو
تیری لاش سے بھوکے گدھ اپنی
تسکین ہوس کو دیتے ہیں
تُو مر کے بھی محفوظ نہیں
کیوں مر کے بھی ؐمحفوظ نہیں