اے صاحب اپنی اوقات میں رہا کیجیئے
یوں ہی نہ ہر اک شخص سے ملا کیجیئے
اب سر پہ کسی کے کرم کی بدلیاں نہیں
اب دیوار کے سائے تلے چلا کیجیئے
ہم تو شمع محفل تھے سو ہم بجھ چلے
آپ دہلیز کے چراغ ہیں سو جلا کیجیئے
چاند تنگ کرے گا جھانک جھانک کر
اپنے کمرے کی کھڑکیاں نہ واہ کیجیئے
جذبات میں آ کے جو ڈبو دے بستیاں
ایسے قطرے کو کبھی نہ دریا کیجیئے
سبھی یہ کہتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے
کبھی اپنا بھی گریبان جھانک لیا کیجیئے
پہلے تو زندگی کی مصروفیتیں بہت تھیں
عثمان سو آفس سے چھٹیاں اب کیا کیجیئے