خُون جگر سے لکھی ہے
ہر ایک کہانی
کسی دل کے ورق پہ بنی
جیسے ان مٹ نشانی
ہر ز خم سے اُٹھتی ہے
ایک سسکی ۔ ۔ ۔ ۔ ایک آہ
کرب و بلا ۔ ۔ ۔ کرب و بلا
ہر سوُ ہے
وہ آہ و بکا
کہ چیخ و پُکا ر ہے
اب پھر سے کسی مسیحا کا
انتظار ہے۔ ۔ ۔ ۔ انتطار ہے
نسل آدم سسکتی ہے
دہشتوں۔ ۔ ۔ زلزلوں کی زد میں
اور پکار اُٹھتی ہے
کہ اے میرے ہم وطن
ہمدرد و موُنس ۔ ۔ ۔ ۔ غمگسُار
آ کے مُجھے گلے سے لگا
بہت اُداسی ہے
جسم زخمی ہے
رُوح پیا سی ہے