کم سے کم بدلنے پہ زارو قطار نہ روتے ہم
تجھے یاد ہے چلو اب کروا دیتے ہیں ہم
کہ دل جب ٹوٹا تھا تو کیسے ٹوٹے تھے ہم
گر یاد ہو تو فقط بھولنے کا تقاضا کیا اس نے
کیسے بھولیں یہ تقاضا اگر بھول گئے ہیں ہم
مت پوچھو سوالوں کی عادت ڈالی کس نے
سولوں کے باوجود جن سے سوال نہ کیا کرتے تھے ہم
آئینے میں دیکھتے تھے کے بکھر گئے ہیں ہم
اتنی شدت سے پکارتے ہیں کے ٹوٹ جائیں ہم
تیری بے وفائی کی سزا کچھ یوں دیں گے ہم
دروازے پہ قفل نہ ہو گا مگر آنے نہ دیں گے ہم
کہا تھا نہ اے کاش وقت تھم جائے
کہ غلطی سنوار لو تم,اور خود کو سنوار لیں ہم