سایہ ہو جہاں ، پیار ہو اس کو اسی گھر سے
بادل مرا مجھ پہ ہی سدا ٹوٹ کے برسے
جلتی ہوئی دوپہر میں ہو پاس بھی تو کیا
تھوڑا بھی اگر مل نہ سکے سایہ شجر سے
ہیں جس کے پسینے کی بدولت ہری فصلیں
دو وقت کی روٹی کو وہ دہقاں بڑا ترسے
نیت تری کھوٹی ہے ترے ہاتھ میں تسبیح
نیکی بھی جو کرتا ہے تو دنیا ہی کے ڈر سے
دے ان کی حفاظت کی بھلا کون ضمانت
محفوظ نہ ہوں لوگ جو حکام کے شر سے
قرآں کو سمجھنا بڑا دشوار ہے ان کو
نکلے ہیں مسلماں کہاں غیروں کے اثر سے
اے رب مہرباں ! یہ تری شان نہیں ہے
خالی میں چلا آؤں اگر تیرے بھی در سے
تھا چین کہاں جامد و سا کت مجھے زاہد
اب چین ملا ہے مجھے دشوار سفر سے