بارش ہوئی ہے آئے تو کیسے مجھے یقیں
جیسی تھی اب بھی ویسی ہے پیاسی مری زمیں
کہتے ہو تم کہ ہنسنے لگے گل بہار میں
لیکن فضا چمن کی ہے اب بھی وہی حزیں
سجدوں کا مجھ کو چاہے ملے نہ کوئی صلہ
تیرے ہی سامنے میں جھکاؤں گا یہ جبیں
ہر شخص دے رہا ہے کھلا اور چھپا فریب
کس کا یقین کیجیے ، کس کو کہیں امیں
باطل کے سامنے نہ جھکو ، حق کا ساتھ دو
سچائیوں سے پیار کرو تم پہ آفریں
آئے ہو مال لے کے خریدو گے کیا مجھے
بک جاؤں میں مفاد کی خاطر نہیں نہیں
میرے نبی سا آیا نہ آئے گا اب کوئی
صورت بھی تھی حسین اور سیرت بھی تھی حسیں
(صلی اللہ علیہ و سلم)