بار بار کسی کو آزمایا نہیں کرتے
پتھروں کے سامنے سر جھکایا نہیں کرتے
جو دے نا سکے پل بھر کی بھی خوشی
ایسی رشتوں کو نبھایا نہیں کرتے
خدا پر ہیں بھروسہ تو ُاڑا دیں
زبردستی محبت میں پرندہ قید کیا نہیں کرتے
دامن پھیلا کر بھی بھلا کیا ہوگا ؟
پتھر دل تو آنسوؤں سے بھی پگلا نہیں کرتے
میرے کمرے میں یہ کیسا اندھیرا ہو گیا ہے ؟
کہ اب آسمان کے ستارے بھی یہاں آیا نہیں کرتے
نجانے کیوں بہاروں میں بھی چہرہ ویران رہا لکی ؟
سنو تمہارے بعد گلاب بھی مجھے راس آیا نہیں کرتے