باقی ہے

Poet: UA By: UA, Lahore

ابھی خوابیدہ آنکھوں میں جاگتا خواب باقی ہے
ابھی تک رسم الفت کاسب ادب آداب باقی ہے

ابھی کہنہ مراسم کی بہت سی یادیں قائم ہیں
ابھی نمناک ورقوں میں خستہ گلاب باقی ہے

بہار شب ہوئی رخصت خزاں کا دن طلوع ہوا
مگر محفل میں ابھی تک چنگ و رباب باقی ہے

ابھی سے مہرباں ساقی میں پیالہ کیسے توڑ دوں
ابھی تیری صراحی میں میری شراب باقی ہے

ہم نے تمام قصہ بے باک کر دیا ہے
لیکن تمہاری ضد ابھی حساب باقی ہے

کھلیں گے آہستہ آہستہ پردہ ہائے بام و در
ابھی تھوڑا صبر کر لو ابھی حجاب باقی ہے

نا کردہ گناہوں کی سزا پا چکے بہت
اب کردہ خطاؤں کا ثواب باقی ہے

اپنی کہانی ہم تیری زباں سے سن چکے
ابھی ان سنی میری ان کہی کتاب باقی ہے

عظمٰی میرے سوال بھی میری طرح عجیب ہیں
جواب مل گیا پھر بھی ابھی جواب باقی ہے

Rate it:
Views: 423
24 Nov, 2009