روتے رہنے کا نہیں اور رلانے کا نہیں
یاد رکھنا ہے کسی طور بھلانے کا نہیں
شرط اتنی ہے مرے ساتھ اگر چلنا ہے
بیچ رستے میں کہیں چھوڑ کے جانے کا نہیں
در گذر کر لو اگر مجھ میں کوئی خامی ہے
آسماں سر پہ مری جان اٹھانے کا نہیں
تم قریب آؤ تو دھڑکن ہی بتائے گی تمہیں
حال کیسا ہے مرے دل کا، بتانے کا نہیں
سانحہ جس سے میں گزرا ہوں ترے ہجر کی شب
کیسے الفاظ چنوں میں کہ فسانے کا نہیں
کل کڑا وقت تھا تجھ پر، تو ترے کام آیا
اب مَیں مشکل میں ہوں اے دوست بہانے کا نہیں
اک حقیقی ہے منانا ہے بہت سہل جسے
اک مجازی ہے کہ روٹھے تو منانے کا نہیں
شہر تو پاؤں کے حلقے میں مرے ہے لیکن
ایک کوچے میں کسی طور بھی جانے کا نہیں
روند کر دل کو یہ حسرتؔ کے چلا جاتا ہے
ہے قصور اپنے مقدّر کا، زمانے کا نہیں