لے کر اپنے ہاتھوں میں بجھتے چراغ
کس شان سے نکلے اجالوں کے سفر کو
عجب مفلسی کا دور ہے کہ ہر شخص
لوٹ رہا ہے شوق سے اپنے ہی گھر کو
سانحہ ضرور کوئی گزرا ہے اہلِ زمیں پر
ورنہ کون کاٹتا ہے اپنوں کے سر کو
خون سے تر، وحید تیری پلکوں کا بدن
کیا چھیڑا ہے کسی نے اپنوں کے ذکر کو