بدلو گے تم بھی مگر بدلے نہیں ابھی
آوارہ پنچھیوں نے شجر بدلےنہیں ابھی
گریباں کیانہیں رفو،دامن بھی ہےچاک
سدھرجاکہ ہم نےرفو گر بدلےنہیں ابھی
اے صبا کہنا میں وہیں کھڑاہوں اب تک
ضرورت ہو تو آ جانا کہ گھر بدلےنہیں ابھی
برسا دے اگر ہیں تیرے ترکش میں کچھ
کہ ہم نے اپنےقلب وجگربدلےنہیں ابھی
اگر کاٹنےہیں خار ،ہاتھ تو ہونگے زخم زخم
زمانے کو کہہ دیا خود مگر بدلےنہیں ابھی
اُس شہربھی ہوگا چرچا اُنکے حُسن کا جوہر
وہ سوزِمرضِ عشق سےاگر بدلےنہیں ابھی