کُچھ صبح کو کر میلا مجھے کُچھ شام کو بدنام کر
ملے خاک میں بھی نا جگہ اتنا مجھے گُمنام کر
کر ستم ایسا کہ تماشا بن جاؤں میں سب کی نظر کا
کبھی اِس گلی کبھی اُس گلی بد نام مجھے سرِ عام کر
میں تیری کھوئی قیمت میں تیرا وقار بن جاؤں
تُو میرے ظرف میرے وقار کو بے دردی سے نیلام کر
میرے خون کا قطرہ قطرہ نچوڑ لے جام میں
میرے کلیجے کے ٹکڑوں سے اپنے طعام کا اہتمام کر
کون چاہتا ہے قید سے رہائی طلب کسے آزادی کی
اپنی نظر کے طلبگاروں کو ہمیشہ کے لیے غلام کر
کُچھ ہو مزا میرے لٹنے کا،کُچھ ہو مزا تیرے لوٹنے کا
لوٹ لے جو میرا چین میرا سکون ایسا کوئی کام کر
حرف سے حرف ملا کر خود کو جوڑا ہے میں نے
تُو میرے نام کے ہر حرف کے ٹکڑے سے ٹکڑے تمام کر
اِک عرصے سے سوگوار رکھا ہے تیری بے رُخی نے علی
اپنی نظروں سے تھام کر میری سانسیں قصہ میرا تمام کر