بس یہی چند الفاظ ہیں زیست کا سرمایا
زندگی سے اور کچھ بھی ہم نے نہیں پایا
رب کی رضا جان کے سہتے رہے صبر سے
جو بھی وقت زندگی نے قسمت سے دکھایا
جتنے بھی رنج و الم اپنی جان پہ سہے
ہاتھوں کی لکیروں نے ان کا حال سنایا
چشم نم کے اشکوں کو دل میں جذب کیا
ہر دم میرے ہونٹوں نے خوشیوں کا ترانہ گایا
اپنوں کی تکلیفیں اور دل کی خانہ بربادی
عظمٰی دل ہی جانتا ہے کیا دل نے درد اٹھایا