بعد مدت وہ دل کا حال سنانے آئے
اس بہانے سے غریب کے خانے آئے
جن کی تہمت بھی تبرک سے کم نہیں ہوتی
ہم پہ وہ پھر نیا الزام لگانے آئے
وہ پاس آئے آ کے بیٹھے اور مسکرا دیئے
میں نے جانا کہ میرے دل کو دکھانے آئے
پوچھتے ہو کہ یہ آنکھوں میں نمی کیسی ہے
دوست کچھ تم سے مل کے یاد پرانے آئے
دل جنھیں بھول چکا تھا کئی برسوں پہلے
کیوں میرے خواب میں وہ آج نہ جانے آئے
بات کچھ ہو نہ ہو ہم ساتھ ہوں تو کہتے ہیں
لوگ یہ دیکھ کے وہ دیکھو دیوانے آئے
لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جلائی تھی قندیل
بے وجہ شوق میں جلنے کو پروانے آئے
تتلیاں پھول پرندے سبھی جی اٹھے ہیں
لوٹ کے پھر وہی رنگین زمانے آئے
عظمٰی ایسا کرو ویسا کرو ایسا نہ کرو
وہ جب آئے مجھے تقریر سنانے آئے