کرجو بیٹھے بغاوت پھر آج پھر تم سے
مدت شکووں کی با طرز جمہوری تو نہیں
عشق کے میدان میں پھر سے بغاوت ہوگی
مت جھک تعبیر کے جھمیلوں میں پھر آج
نہیں تو اس امید سے پہلے ہی قیامت ہو گی
دل تیری وفاؤں کا طلبگار آج ہے پھر
خزاں کو گزرنے میں رات تو پھر ہوگی
آنکھ میں پڑھ گیا ہے امید کا آنسو اے دل
اس امید کو بھرنے میں بھیک تو پھر ہو گی