ٹوٹیں ہوئ روحوں کو سنبھالا نہیں کرتے
ہر بات کو محفل میں اچھالا نہیں کرتے
رکھتے ہیں وہ شوقِ غمِ تاریکیوں کو جو
وہ اپنے ہی کمروں میں اجالا نہیں کرتے
پھرتے سرے بازار ہیں ہم سے جڑے کچھ لوگ
ملتے ہیں تو ایسے کہ پکارا نہیں کرتے
اور اب کی بار تو یہ ستم اور بڑھ گیا
کہ ہنس کے مل لیے وہ کنارہ نہیں کرتے
یہ عجلتوں کو ملنا ہمیں راس نہ آیا
وہ ساتھ تھا میرے مگر وہ پاس نہ آیا
ہم نے بھی راہ نکال لی کہ دور ہولیے
ہم سے بہت سے لوگ گزارہ نہیں کرتے
اب کہ جو ملو گے تو میری آنکھ دیکھنا
اس آنکھ کے آنسو کا شرارہ نہیں کرتے
ہم تھک گئے ہاں تھک گئے اس انتظار میں
بوجھل ہوۓ قدموں سے یہاں بیٹھ گئے ہیں
شاید کہ اب یہ جاۓ پناہ راس آگئی
ہاں اب جو انتظار تمھارا نہیں کرتے