بن کے کیسا عذاب آتے ہیں
مجھ کو تیرے ہی خواب آتے ہیں
مے کدہ حسن ہے حسینوں کا
سب ہی پینے شراب آتے ہیں
ہم یوں جاتے ہیں بزمِ یاراں میں
جیسے شاہی نواب آتے ہیں
صرف تیرا لحاظ کرتے ہیں
ورنہ سارے حساب آتے ہیں
کیں بشر نے شکایتیں لیکن
کب خدا سے جواب آتے ہیں
کیا ہیں قانون حکمرانوں کو؟
ہم ہی زیرِ عتاب آتے ہیں
منتظر ہیں ثباؔت قبر پہ کب
وہ سجانے گلاب آتے ہیں