یہ بچے جو مستقبل کے ہیں معمار
بجائے قلم کے ہاتھوں میں ہیں اوزار
غربت کے ہاتھوں چہرے ہیں غمگین
کیا یہ بچے بھی بنیں گے اک دن شاہین؟
یہ تو ہیں اللہ کے باغ کے پھول
لیکن پڑی ہے چہروں پر دکھ کی دھول
نہ ہاتھ میں بستہ، نہ قلم نہ کتاب
وہ چاہتے ہیں بننا اس ملک کے چمکتے آفتاب
کیا ہم ان کو نوید فصل بہار دیں گے
مٹا کے ان کے دکھوں کو مستقبل سنوار دیں گے