بچے بوڑھے ہیں سب نوجواں رقص میں
میں اکیلا نہیں ہوں یہاں رقص میں
ادنی اعلی کی پہچاں بچی ہی نہیں
ہوگئی ہے محبت عیاں رقص میں
رنج و غم کے یہ بادل سبھی چھٹ گئے
ذکر جاناں نے باندھا سماں رقص میں
مبتلا عشق میں ہیں سبھی آدمی
سارے کا سارا ہے کارواِں رقص میں
چل پڑی زندگی رک گئے رفتگاں
ہیں ازل سے یہ دونوں جہاں رقص میں
ڈھونڈنے زندگی کو چلے ہو کہاں
اب وہاں موت کا ہے سماں رقص میں
میرا شہزاد مرشد ہے کامل ولی
دل جلے ہیں سبھی درفشاں رقص میں