بڑھنا ہے گر تجھے تو نہ پیچھے پلٹ کے دیکھ
بیتے ہوۓ دِنوں کے نہ صفحے اُلٹ کے دیکھ
دریا ہے تو اگر تو بپھرتا ہے کس لیۓ ؟
ساحل کے بازوؤں میں کسی دِن سمٹ کے دیکھ
مر مر کے زندگی کا تجربہ نہیں تجھے
بد قسمتی سے تو کبھی اپنوں سے کٹ کے دیکھ
پڑھنی ہے گر تجھے کسی عورت کی زندگی
اس کی طرح سے تو کیٔ ٹکڑوں میں بٹ کے دیکھ
آیٰٔںٔ گی تجھ کو خوبیاں میری نظر سبھی
نفرت بھری نگاہ سے اِک روز ہٹ کے دیکھ
مشکل نہیں ہیں اِس قدر باہر کی شورشیں
اندر کی جنگ سے تو کِسی دِن نِمٹ کے دیکھ