بھلے نہ شام و سحر سلسلے وصال کے رکھ
مگر یہ فاصلے بھی تو نہ ماہ و سال کے رکھ
جہاں کو ڈھیل جو دے گا تجھے نگل لے گا
یہ مست اونٹ ہے اِسکو نکیل ڈال کے رکھ
تجھے بھی مجھ سے محبت ہے تو بطورِ ثبوت
مری طرح سے ہتھیلی پہ دل نکال کے رکھ
تجھے بتایا تھا انساں نہیں یہ پتھر ہیں
کہا تو تھا نہ یہاں آئینے خیال کے رکھ
ہر ایک موڑ پہ بادِ ہوس کا پہرہ ہے
تو اپنی شرم و حیا کے دِیے سنبھال کے رکھ
نہ گھول شہد ملے دودھ میں غموں کا نمک
شبِ طرب میں نہ قصے شبِ ملال کے رکھ
ڈسا ہے یاروں نے تو بلبلاتا کیوں ہے امین
کہا تھا کس نے کہ زہریلے ناگ پال کے رکھ