شب بھر کسی کی
یاد نے مجھے
سونے نہیں دیا
وہ بولا ہی اتنے
دہبے لہجے میں کہ
ُاس کی بےبسی نے
میری آنکھوں کو
خشک ہونے نہیں دیا
جس نے کبھی
سنجدگئی سے اقرار
تک نا کیا تھا
آج ُاسی شخص نے
دوران گفتگو
ہنسی کو اپنے لب
پے آنے نہیں دیا
یوں تو رو رہی تھی
آنکھیں ُاس کی پر
ُاس نے اپنے اشکوں
کو مجھ پر
ظاہر ہونے نہیں دیا
کانٹوں میں ڈھونڈ رہا تھا
گلاب میرے لیے
پر ایک بھی کانٹے کو
ُاس نے میری طرف
آنے نہیں دیا
تنہایوں کے موسم
میں محفلیں
دیتا رہا مجھے
کتنا عجیب ہیں
وہ شخص جس نے
میری زندگی کو
کبھی ُاداس ہونے نہیں دیا
چاہا مجھے ُتو
چاہیتوں کی حد کر دی
دیوانہ سا ہے وہ
جس نے پھر مجھے
کسی اور کا
ہونے نہیں دیا
بن گیا ہیں اس قدر
میری دعاؤں کی زنیت وہ
کہ ُاس کے سوایا
میری دعاؤں نے
خود میں کسی اور کا
نام آنے نہیں دیا
میرے شعروں میں
سماء گیا ہیں اس قدر
کہ پھران میں
کسی اور کا
ذکر ہونے نہیں دیا
پر دنیا نے مجبور کر دیا
ُاس شخص کو اتنا
کہ مجھ سے خفاء ہوا
تو پھر مجھے اپنے
خوابوں میں بھی
آنے نہیں دیا
چاہتا تو ہیں
اب بھی مجھے
پر اب ُاس نے
اپنے لبوں پے بھی
اقراریں وفا کوآنے نہیں دیا