بے ادبی کے ڈر سے کبھی میں بول نہ سکا
اور مل نہ سکی کبھی میری محبت مجھے
وہ سمجھ کر بھی انجان بن گیا
کبھی راس نہ آسکی اتنی شرافت مجھے
رنگ اس کا مجھ پہ چڑھ گیا ہے
زمانے میں بدنام کر گئی صحبت مجھے
لوگ مسکان لیے بڑھتے رہے میری طرف
مگر نہیں رہی کسی اور کی ضرورت مجھے
تا عمر دھوکے ملتے رہے اپنوں سے
آخر لے ہی ڈوبی میری حماقت مجھے
کانٹوں کو دیکھتے ہی آنسو نکل پڑے
نجانے کس موڑ پہ لے آئی یہ نزاکت مجھے
جتنا میں نے اسے چاہا ‘اگر خدا کو چاہتا
مل ہی جاتی کوئی شائد کوئی چوکھٹ مجھے