جذبات کی عمر گزر گئی
شوخیوں کی عمر گزر گئی
کھلکھلاہٹوں کی عمر گزر گئی
سجنے سنورنے کی عمر گزر گئی
اب تو بس
اک بے حسی ہے جو پورے وجود پہ چھائی ہے
بے یقینی ہے جودل کو ہر وقت گھیر لیتی ہے
بے یقینی ہے جو دل چین نہیں لینے دیتی
بے بسی ہے جو دل کو اداس کرلیتی ہے
اے میرے چارہ گر
اب آس کے جگنو روشنی نہیں دیتے
اب محبت کا پانی دل کو سیراب نہیں کرتا
اب خوشی کی آہٹ دستک نہیں دیتی
اب کے برس کچھ ایسا کرنا
۔کہ ان سب سے کچھ الگ کچھ نیا کرنا