ٹھہرے طوفان سی جذبات کی حالت تو نہیں
جس کو خود بھی نہ سمجھ پاؤ وہ الفت تو نہیں
یہ طبیعت کا تلاطم تو چلو سہہ لے کوئی
بے رخی اور جفا آپ کی فطرت تو نہیں
مال و دولت کو میں ٹھکرا کے چلا آیا ہوں
خوش ہوں کٹیا میں محلات کی حسرت تو نہیں
میری روزی میں مرا خون پسینہ شامل
اپنے ہاتھوں کی کمائی مری ذلت تو نہیں
مشرقیت سے ہیں شرمندہ نئے عہد کے لوگ
اپنی تہذیب کو اپنانا جہالت تو نہیں
تیرے سجدوں میں جنوں ہے نہ کوئی سوز جگر
تیرے سجدے تری عادت ہیں عبادت تو نہیں
شوق رسوا ہے کہاں ناز ہو مجھ کو زاہد
شاعری شہر میں میرے لیے عزت تو نہیں