بے یارو مدد گار ہوئے پھرتے ہیں
راہِ عشق میں یارو ہم خوار ہوئے پھرتے ہیں
کبھی چُوم کر سجائے جاتے تھے سَر آنکھوں پر
اَب گلی گلی بازار ہوئے پھرتے ہیں
تول دیا عِشق نے بے مُول کر کے
جیسے تکڑی تکڑی میں اَخبار ہوئے پھرتے ہیں
روز کھلتے ہیں گُل رنگ برنگے بہاروں میں
ہم ہیں کہ ہر موسم میں اَشکبار ہوئے پھرتے ہیں
میری عاجزی بھی کچھ کام نہ آسکی
ہم عاجز بندے مولا تیرے گنہگار ہوئے پھرتے ہیں
بَھٹکے ہوئے ہم صِراط مُستقیم سے
ہجرِ آتش کے اَنگار ہوئے پھرتے ہیں
یوں کھایا عشقِ دیمک نے دامن کو میرے ساجد
جزائے محبت میں پُر اِسرار ہوئے پھرتے ہیں