میری غزل میں بھی کبھی تاثیر ہو ایسی
میری پکار بھی کبھی دلگیر ہو ایسی
میں تیری یاد سے کبھی غافل نہ ہو سکوں
اس دل سے باندھ لے کوئی زنجیر ہو ایسی
پہنچے تیرے دربار میں تاثیر ہو ایسی
تمہارے دل کو لطف دے جب سنائی دے
میری غزل تیرے لئے تاثیر ہو ایسی
بند آنکھوں سے جسے نیند میں دیکھا میں نے
تو میرا ہم سفر ہے خواب کی تعبیر ہو ایسی
جو سامعیں کے دل کے ٹکڑے بکھیر دے
میرا ہر لفظ تاثیر میں شمشیر ہو ایسی
جسے سن کر اشکوں کا سیل رواں ہو
میری غزل سب کے لئے دلگیر ہو ایسی
تیرے سوا کوئی یہاں مکاں نہ کر سکے
یہ میرا دل تیرے لئے تعمیر ہو ایسی
عظمٰی کچھ اختیار میرا دل پہ چل سکے
کوئی تو بتائے مجھے تدبیر ہو ایسی