تارکینِ دل ملیں گے تارکینِ وطن سے آج
داستانِ فراق سنایئں گے بغل گیر ہو کے آج
زخم اپنے دیکھایئں گے سینے کر کے چاک
آہ! ہمارے نیشانِ تلوار بھی مندمِل ہو چلے آج
دل دیکھایئں یا جگر، سب زخم شُدہ ہیں
رؤو گے تو نہں اپنی ستم ظریفیاں دیکھ کے آج
ہماری بے بسی پہ دریا رو پڑے
پر وہ رہا خا موش یہ تماشہ دیکھ کے آج
حسرتیں تو جمع ہو کر پہاڑ بن گئیں
وہ اس کے دامن میں کھڑا ہو کے مُسکرا دیا آج
دل جلا، جگر بنا، کلیجا سڑا، انھیں جدا کر کے
اب کیا باقی ہے ثانی ؔ تیرے توشے میں آج