تتلیوں کا مجھے ٹوٹا ہوا پر لگتا ہے
دل پہ وہ نام بھی لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
رات آئی تو ستاروں بھری چادر تانی
خوبصورت مجھے سورج کا سفر لگتا ہے
یہ بھی سوتے ہوئے بچے کی طرح ہنستا ہے
آگ میں پھول ، فرشتوں کا ہنر لگتا ہے
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤ تو دیوار میں سر لگتا ہے
میں تیرے ساتھ ستاروں میں گزر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے
مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمنِ جانی میرا
خُود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے
بُت بھی رکھے ہیں ،نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں
دِل ، مرِا دل نہیں، خُدا کا گھر لگتا ہے