تری چاہت میں جلنا چاہتے ہیں
شمع بن کر پگھلنا چاہتے ہیں
ابھی رک گردشِ ایام تھوڑا
ذرا سا ہم سنبھلنا چاہتے ہیں
انہی پہ تاج دے گا زیب اک دن
جو سر کٹ کر اچھلنا چاہتے ہیں
مجھے ٹھکرا دیا جن قافلوں نے
وہی اب ساتھ چلنا چاہتے ہیں
نجانے کب سے آنکھوں میں رکے ہیں
یہ چشمے اب ابلنا چاہتے ہیں
حدوں نے کر دیا محدود ہم کو
حدوں سے ہم نکلنا چاہتے ہیں
اگر بدلاوَ اچھا ہے تو ہم بھی
ذرا خود کو بدلنا چاہتے ہیں
بہت سے اب بھی ہیں ارمان باقی
جو شدت سے مچلنا چاہتے ہیں
انھیں بہلائیے خوابوں سے عذرا
جو خوابوں سے بہلنا چاہتے ہیں