تسلسل ٹوٹ جائے تو ہنر بھی چھوٹ جاتا ہے
وقت کو تھام لو ورنہ وقت ہی لوٹ جانا ہے
مسلسل وار سہتا ہے اور قائم بھی رہتا ہے
دل شیشہ نہیں جو اک ضرب سے ٹوٹ جاتا ہے
کانٹوں سے لدے پھولوں میرے دامن سے نہ الجھو
کہ یہ الجھا ہوا دامن ہمیشہ چھوٹ جاتا ہے
مسلسل چلتے چلتے کچھ گھڑی سستانے کے لیئے
کبھی کبھی میری سانسوں کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے
دست حیات جاوداں نے جو ڈوری تھام رکھی ہے
اسی ڈوری کا دامن ایک پل میں چھوٹ جاتا ہے