تشنگی کو بڑھائے جا رہی ہے

Poet: Usman Tarar By: Usman Tarar, Hafizabad

زندگی مجھے آزمائے جا رہی ہے
اور موت قریب آئے جا رہی ہے

زرد پتوں پہ کوئی چل رہا ہے
یا خزاں انہیں رُلائے جا رہی ہے

ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج
اندھیرے میں کُرلائے جا رہی ہے

گھنی چھاؤں سے ڈر لگ رہا ہے
دھوپ ہے کہ کھائے جا رہی ہے

میٹھی میٹھی، بھینی بھینی سی برسات
تشنگی کو بڑھائے جا رہی ہے

منصفوں کی قلم ہے یا کوئی تلوار
بس سروں کو گرائے جا رہی ہے

منڈیر سے گرا کے بجھے چراغوں کو
عثمان ہوا دشمنی نبھائے جا رہی ہے

Rate it:
Views: 520
27 Oct, 2008