تصور سے نہاں ہوتی نہیں ہُوں
نگاہوں پر عیاں ہوتی نہیں ہُوں
جہاں ہوتی ہُوں واں ہوتی نہیں ہُوں
میں ہوتی ہُوں جہاں ہوتی نہیں ہُوں
فسانوں کو بیاں کرنا ہے آساں
حقیقت ہُوں بیاں ہوتی نہیں ہوں
تمہاری سانس دھڑکن اور نظر میں
ذرا دیکھو کہاں ہوتی نہیں ہوں
تجھے آسانیاں دینے کی خاطر
سراپا امتحاں ہوتی نہیں ہوں
بکھر کے ٹوٹ جانا ہے زمیں پر
تبھی تو کہکشاں ہوتی نہیں ہُوں
نہ روکُوں میں ہوا کے تازہ جھونکے
فصیلِ آشیاں ہوتی نہیں ہُوں
ترے ہونٹوں پہ رہنا آرزو ہے
مگر میں داستاں ہوتی نہیں ہُوں
مکمل دھوپ یا سایہ مکمل
میں ان کے درمیاں ہوتی نہیں ہُوں
فلک چیرے ہیں میری وحشتوں نے
میں زیرِ آسماں ہوتی نہیں ہوں
کنارے ساتھ ہی رکھتی ہُوں عاشی
میں بحرِ بے کراں ہوتی نہیں ہُوں