انجانی راہوں پہ چل رہا ہے کوئ
موسم سرما میں ابل رہا ہے کوئ
کہنے کو ساغر مگر دلکا ہے بخیل
بخیلوں میں بہلا ایسا بخل رہا ہے کوئ
بہتے ہیں دریا آنکھوں سے کسی کے مگر
ہے شادمان کوئ تو مچل رہا ہے کوئ
ماحول خوشگوار ہے اور نور سا نظر میں
سانچے میں کسی کے ڈھل رہا ہے کوئ
خوشیوں میں دوسروںکی بہت خوشہے کوئ
نار تعصب میں جل رہا ہے کوئ
رنج و غم ہے نہ ڈر ہے موت کا
قسمت میں مری اچھا عمل رہا ہے کوئ
تعمیری سوچ گر ہو تری تو کہے احمد
واہ ارے واہ بدل رہا ہے کوئ