ہماری ہستی کے آئینے میں ہمارا کوئی حباب نہ ہے
اسی سے پوچھو ہماری ہستی ۔ خراب ہے کہ خراب نہ ہے
یوں تو دیکھے ہزار چہرے ۔ چاند کے سے چمک رہے تھے
تم ہو اتنے مگر پیارے ، تمہارا کوئی جواب نہ ہے
غریب اتنے کہ میکدے میں ۔ جام لینے کو جان دے دی
یہی غریبی ہے حال اپنا۔فقیر عاشق نواب نہ ہے
جس سے میرا بیکار بندھن۔ جس سے میری ہر ایک دھڑکن
جنہی سے ہے ہزار الجھن۔ انہی کے پاس جواب نہ ہے
تو یہاں پہ ، ہے اہل ثروت۔ تیرا میخانہ تیری حکومت
نکالا ہم کو تو کی ملامت، جو دام نہ ہے شراب نہ ہے
تھا تیرا سننا ۔مایوس لوٹے، پتا چلا تو کہہ کے پلٹے
جس کو سننے ہم آ رہے تھے۔ اسی کا آج خطاب نہ ہے
ابھی بہار شروع ہوئے ہے۔چمن کی ہر اک کلی کھلی ہے
جھومتے سب ہنسی خوشی ہے۔ خزاں کا کوئی عتاب نہ ہے
ہماری قسمت کہاں ہے ایسی۔ کتاب کھولوں گلاب نکلے
نہیں پڑھتا کتابیں اب میں۔ گلاب نہ ہے کتاب نہ ہے
عجب سے ان کے یہ رنگ دیکھے۔ برقعہ اپنا اتار پھینکے
کیا حسین وہ آج سنورے ۔کہ ان کے رخ پر نقاب نہ ہے
ہمیشہ رہتا یہ رنج ہم کو۔ کہ یاد کرنا جرم ہے کیا
بھلا ہوا کے بتا دیا ہے گناہ نہ ہے ثواب نہ ہے