غبارِ راہ میں اب بھی بلا رہا ہے کوئی
نجانے کیوں وہ بہت یاد آ ر ہا ہےکوئی
مجھے امید کہ مہکے گا میرا پھر آنگن
تمہاری یاد کا یہ سلسلہ رہا ہے کوئی
عجیب بات ہے وہ آج پھر نہ پڑھ سکے
مری وفا کا یہی تو صلہ رہا ہے کوئی
تری گلی میں نہ جاؤں گی کون کہتا ہے
تری گلی کا یہ جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
کوئی بتائے کہ سپنے وہ کیسے چور ہوئے
درِ حیات میں اترا سجا رہا ہے کوئی
رہو گے جس کے اندھیروں میں روشنی بن کے
وہی چراغ تمھارا بجھا رہا ہے کوئی
یہاں تو لوگ بچھڑتے ہیں عمر بھر کے لیے
ہزار بار کسی کا دغا رہا ہے کوئی
غریبِ شہر تو گمنام مر گیا وشمہ
امیرِ شہر ہی تو یہ خفا رہا ہے کوئی