تمہاری یاد کے پنچھی بہت ستاتے ہیں مجھے
نیند سے جگا کر بہت تڑپتے ہیں مجھے
کاش میرے دو پر ہوتے تو میں ُاڑ کر آ جاتی
یہ دوریوں کے فاصلے اندر سے جلاتے ہیں مجھے
تم کون ہو میرے ، کوئی کیا سمجھے ، کوئی کیا جانے
سنو لوگ تلخیوں کا نشانہ بناتے ہیں مجھے
میری بھیگی پلکوں پر بہت سوال ُاٹھاتے ہیں لوگ
تمہارے نام پر سارے اب سمجھاتے ہیں مجھے
یوں لگتا ہے حوصلہ تو مجھ میں ہے ہی نہیں
جب چراغ کی مانند بجھاتے ہیں مجھے